ہمیں یہاں دیکھ کر آپ کو حیرت تو ہوئی ہو گی لیکن کیا کیجئے کہ دنیا ہے۔ یہاں کی بنیاد ہی تنوع پر ہے۔ کبھی وقت نہیں رکا۔ ہمیں لگتا کے کہ بس زمین رکی ہوئی ہے۔ لیکن ہم ہی یہ بھی جانتے ہیں کہ اس کے چکر تو ایک پل چین نہیں ہے۔ سب سے زیادہ آخر تو اسی کو آئی ہوئی ہے۔ جس ٹرین میں بیٹھ کر کالم لکھ رہی ہوں وہ بھی مسلسل دوڑے جا رہی ہے۔ ہمیں حرکت سے جس قدر بھی اختلاف ہو یہ بات بھی جانتے ہیں کہ اسی حرکت میں برکت ہے۔ کل کو اگر زندگی کا ارتقاء اور تبدیلی رکھ جائے تو بھی ہم ہی کو اختلاف ہو گا۔
خیر چھوڑیں۔۔۔
آج کی بات کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا کا زمانہ ہے۔ دنیا کے کسی بھی حصے میں بیٹھے کہیں کا بھی نظارہ کر لو۔ دل بہل بھی جاتا ہے اور دہل بھی جاتا ہے۔ باوجود اس کے کہ کسی نظارے کو چھو نہیں سکتے لیکن محسوس ضرور کر سکتے ہیں۔ بعض دفعہ ایک گانا ہی وطن کی سیر کو لے جانے کی قدرت رکھتا ہے۔ ایسا ہی ابھی کچھ دن پہلے ہوا جب ایک لیڈر جیکٹ پہنی من موہنی سی لڑکی کو فیض فیسٹیول میں ہونے والے مجمعے میں چنگھاڑتے دیکھا۔ اپنے ساتھیوں کے ساتھ نعرے لگاتی، سرفروشی کی تمنا کرنے والی یہ لڑکی خوب تھی۔ ہمارے رونگٹے کھڑے کر گئی۔ ہمیں جھنجوڑ گئی۔ انداز پرجوش ضرور تھا لیکن شائستہ تھا۔ کسی بھی قسم کی گالم گلوچ اور بیان بازی سے عاری تھا۔ تالیوں کی تھاپ پر پڑھی جانے والی شاعری نے ہی کام دکھا دیا۔
ظاہری بات ہے کہ طبیعت کے کھوجی ہیں۔ اس کا پتہ بھی کیوں نہ لگاتے۔ معلوم ہوا کہ عروج اورنگزیب نامی یہ لڑکی طلباء کے حقوق کے لیے آواز بلند کیے کھڑی ہے اور بہت عرصے سے کھڑی ہے۔ پنجاب یونیورسٹی کی تاریخ بھی بہت پیاری ہے۔ کبھی جمیعت طلباء کا سانس لینے پر بھی پابندی لگانے کے درپے ہوتی ہے تو کبھی عروج جیسی لڑکیاں بھی استعمار ہو للکارتی نظر آتی ہیں۔ بہت عرصے کے بعد کسی سرکاری یونیورسٹی کے طلباء میں ایسا جوش دکھائی دیا۔ لگنے لگا کہ ‘تبدیلی آ نہیں رہی۔ تبدیلی آ گئی ہے۔’
عروج کا کہنا ہے کہ ان کی اور ان کے ساتھیوں کی جنگ طلباء کے حقوق اور یونیورسٹیوں میں فوجی مداخلت کے خلاف ہے۔ خدا کی قسم اپنی یونیورسٹی یاد آ گئی جہاں ہمارے وائس چانسلر صاحب کی واحد قابلیت یہی تھی کہ وہ ایک ریٹائرڈ جرنیل تھے۔ اس سے زیادہ نہ درکار تھا اور نہ ہی فراہم کیا گیا۔
لیکن صاحب۔۔۔ یہاں ایسا ہونا تو یوں بھی ہمارے سنسکاروں کے مخالف ہے۔ بھلے بلوچستان یونیورسٹی کا سکینڈل سامنے آ جائے یا یونیورسٹیوں میں ہر قسم کے اظہار رائے پر پابندی، ہم زبان بندی مناسب سمجھیں گے۔
سوشل میڈیا ہر مغلظات کا وہ تواتر بندھا کہ خدا کی پناہ۔ کسی کو طلباء کے سیاست میں حصہ لینے پر اعتراض تھا تو کسی کو عروج کی چمڑے کی جیکٹ پر اعتراض تھا۔ کچھ کو تو محض اس کے سانس لینے سے ہی مسئلہ تھا۔ خدا جانے کہ یہ نعرے اگر عروج کی جگہ اس کے مرد ساتھی لگاتے تو بھی کیا نتیجہ یہی نکلتا یا تنقید میں کچھ کمی آتی۔ خدا کی کرنی تو خدا ہی جانے۔
ایک طرف عروج پر ہونے والی تنقید تھی تو دوسری جانب ملک کے وزیر اعظم جناب عمران خان کا خطاب تھا جہاں انہوں نے نہ صرف موٹر وے کا پھر سے افتتاح کر دیا بلکہ اپنے سیاسی مخالف بلاول بھٹو زرداری کی نقل بھی اتارنا شروع کر دی۔ ظاہری بات ہے کہ خان صاحب مذاق کریں اور ان کے مصاحب نہ ہنسیں۔۔۔ ایسے تو حالات نہیں۔ وہیں انہوں نے ہمہ وقت چیخ و پکار کرنے والے اپنے ساتھی مراد سعید کی بھی تعریف کی اور دعا کی کہ سب نوجوان ان جیسے ہو جائیں۔ صحیح ہو گیا جناب۔
ایک لمحے کو تو یہ لگا کہ خان صاحب ایک لاابالی ٹین ایجرز ہیں جس بے زندگی میں کچھ حاصل نہیں کیا ہوتا تو اپنی انا کی تسکین لوگوں کا تمسخر اڑا کر حاصل کرتا ہے۔
ملک کے آئینی اور سویلین وزیر اعظم کو دیکھ کر احساس ہوا کہ عروج کا مطالبہ کس قدر درست تھا۔ عروج کا طریقہ کس قدر مہذب تھا۔ زمانہ طالب علمی سے ہی سیاسی تربیت ہو تو شاید ستر سال کی عمر میں انسان مضحکہ خیز حرکتیں نہ کرے۔ سیاسی اختلاف کا شعور پیدا ہو۔ کسی دوسرے کی بات سننے کا حوصلہ ہو۔ واحد دلیل کسی کی نقل اتارنا نہ ہو۔ جہاں بات سیاست کی ہو طاقت کی نہیں۔
عروج کا مطالبہ مناسب ہے۔ اس کا طریقہ قابل تقلید ہے۔ اس کی جیکٹ تو بہت ہی پیاری ہے۔