کہتے ہیں امید پہ دنیا قائم ہے.انسان ٹوٹا پھوٹا، کمر بستہ ہو، اسکا گھر جل جاۓ، سب لٹ جاۓ، اسکے سارے راستے بند ہو جائیں اور اسکے سب دوست اس سے روٹھ جائیں، پھر بھی انسان مرتا نہیں.زندہ رہنے کی جبلت اسے مجبور کرتی ہے کہ وہ کہنی کی چوٹ سے لے کے ٹوٹی ہوئی ٹانگ تک، منه پہ طمانچے کھانے سے لے کے عصمت دری تک – شمع ہر رنگ میں جلتی ہے اور انسان کی قوت بقا اسکو حیات دیتی رہتی ہے. دل والے روٹھ بھی جائیں، دل دھڑکتا رہتا ہے.
یہ بھی انسان کی ایک حالت زار ہے کہ جنگ و جدل کے حالات میں بھی وہ فنکارانہ تخلیق کرتا ہے. فیض احمد فیض نے اپنی ١٩٥١ سے لے کے ١٩٥٥ کی جیل میں دست صبا اور زنداں نامہ لکھا.
ہمیشہ سبز رہے گی وہ شاخ مہر و وفا
کہ جس کے ساتھ بندھی ہے دلوں کی فتح شکست ،
فیض، سینٹرل جیل، حیدرآباد، ١٩٥٣.
یہ امید وہ شہ ہے جو چھپکلی کی دم کی طرح، منطق کی تمام قوانین کو جھٹلاتے ہوے، پھر سے اگ آتی ہے، اور زنداں کی تاریکیوں میں تخلیق اور تفکر کا سورج بن کے طلوع ہوتی ہے. قدرت نے انسان کے اندر کچھ ایسا نظام پیوستہ کر دیا ہے کہ آندھی اور طوفان میں بھی انسان کی کوشش اور حرکت کا مادہ ختم نہیں ہوتا. اور اگر کم عمری میں انسان کو امید کرنا آجاۓ تویہ آخری دم تک یہ آپکا ساتھ نہیں چھوڑتی.
ہم غالباً ساتویں جماعت میں پڑھتے تھے جب ہمارا سامنا بھی ایسی ہی امید کی ایک صبح سے ہوا جس نے ہمیں زندگی میں بہت کچھ سکھا دیا. ہم کراچی میں ایک نجی سکول میں پڑھتے تھے اور اپنی طرف سے تو بہت ہونہار تھے. لیکن کمال یہ تھا کہ کبھی ہمارے نمبر کلاس میں ایک اور لڑکی سے اوپر نہ آ سکتے. کبھی ایک نمبر.کبھی دو نمبر. کبھی تین نمبر، ہمیشہ وہ ہی سبقت لے جاتی.ہمیں کان و کان خبر یہ ملی کہ اس لڑکی کو اسکول کی منظمہ بذات خود ٹیوشن دیتی ہیں اور بھاری بھرکم رقم لیتی ہیں لہٰذا بچی کے ماں باپ کو پیسہ حلال کر کے دکھانا ضروری تھا کہ دیکھا ہماری محنت رنگ لا رہی ہے، آپکی بچی اول آ رہی ہے. ٢١ بچوں کی کلاس میں ہم سب سے امیر نہیں تھے لیکن اکثر مضامین میں یہ بچی ہم سے کمزور ہی تھی. خیر ہمیں معلوم تھا کہ ہمارے والد ہمارے لئے اس قسم کا مہنگا ٹیوشن نہ خاطر میں لا سکتے ہیں نہ مر کے بھی اسکو ٹھیک سمجھیں گے. ہم نے اسی کو منظور خدا سمجھ کے جان چھڑائی اورپڑھائی شوق کے لیے کی نہ کے مقابلے کے لئے. انگریزی اور اردو میں ہم ویسے ہی ہمہ تن گوش رہتے تھے اور سائنس تو ہمیں تھی ہی پسند. بس ریاضی میں کمزور تھے لہٰذا ہماری امی نے تہیہ کیا کہ وہ خود بھی ہر روز ہمیں سکھایا کریں گی اور ہم نے اسکول کے بعد اسکول میں ریاضی میں کمزور بچوں کے لئے ایک کلاس بھی لینا شروع کر دی. تھوڑا وقت ملا تو ١٩٩٦ میں پاکستان کے ورلڈ کپ جیتنے کی امید لگا کے بیٹھ گئے. وسیم اکرم کپتان تھے.پورے پاکستان کو ہی ان سے بہت ساری امیدیں وابستہ تھیں. کافی سارے میچ ہارنے کے بعد جب وہ امیدیں پانی میں غرق ہوگئیں تو ہم نے اپنا فارغ وقت اور اپنی بقیہ توجہ گانے بجانے میں لگا دی. علی عظمت اور جنوں کا دور دورہ تھا. ہم نے انکے انقلابی گانے گا گا کے حلق خشک کیا اور پھراسکول کے فنکشنوں کا جب سارا دھوول دھپکا ختم ہوا، تومکمل توجہ پڑھائی میں لگا دی.
ہم نے وہی کیا جو ہم ہر سال کرتے تھے. محنت کی. امتحان دیا. چھٹیوں میں فالسے کھاۓ اور رزلٹ کا انتظار کرنے لگ گنے. رزلٹ آنے والے دن ہم بھی امی ابو کے ساتھ رپورٹ کارڈ لینے گئے. وہاں ماحول کچھ عجیب سا بنا ہوا تھا. کچھ لوگ ہنس رہے تھے اور ہمیں بہت غور سے دیکھ رہے تھے. اور کچھ لوگ ہم سے بنا بات کیے ہی ادھر ادھر ہوگے. جب ہم اپنی ٹیچر کے پاس اپنے امی ابو کے پاس بیٹھے تو یہی امید لگائی کے گزارے لائق نمبر آ گئے ہونگے، ہم نے کونسا فرسٹ آنا ہے کیونکہ ہم جتنی بھی محنت کر لیں، ہم کبھی فرسٹ نہیں آتے،فرسٹ تو ہمیشہ وہی آتی ہے جس نے آنا ہوتا ہے. جب رپورٹ کارڈ کھلی اور جب ہم نے اپنے نمبر دیکھنے شروع کیے اور آہستہ آہستہ پوزیشن والے خانے میں پہنچے تو وہاں ‘١’ لکھا دیکھ کے تھوڑی دیر کے لئے چکرا گئے. یہ کوئی معجزہ تھا یا کوئی لکھنے میں غلطی؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں نے ٣ سال میں جس لڑکی کو شکست نہیں دے سکی اسکو آج اچانک پیچھے چھوڑ گئی؟ ہم تعریفیں اور سلام لیتے وہاں سے گھر آۓ اور ہکا بکا ہی رہے مگر ابو اور امی نے ہر ممکنہ رشتے دار کو فون گھما کے بتلایا کہ مہوش فرسٹ آئی ہے.
ہماری ساتویں جماعت کی یہ استانی کچھ عرصے بعد اسکول چھوڑ کے چلی گئیں. کئی عرصے بعد معلوم ہوا کہ انکو واضح طور پہ ہدایات دی گئیں تھیں کہ پہلے نمبر سے لے کے تیسرے نمبر پہ کس شاگرد کو کتنے مارکس دینے ہیں. ہماری استانی اڑ گئیں اور ڈکٹیشن لینے سے انکار کر دیا. وہ خود ایک بہت دبنگ، زہین اور جانی پہچانی شخصیت تھیں جس کی وجہ سے اسکول انکا بہت کچھ تو نہ بگاڑ سکا مگر ہاں. جس دن انکا سکول میں آخری دن تھا اس دن ہم بہت روے. اور اگلے سال وہی لڑکی اول نمبر پہ آئی جو ہمیشہ آتی تھی. ہماری انقلابی استانی سسٹم کو بدل تو نہ سکیں، مگر ہم کو یہ امید ضرور دلا گیئں کہ ثابت قدم رہنا اور حق کے لئے آواز اٹھانا کتنا ضروری ہے کیونکہ آواز اٹھانا اس لئے ضروری نہیں ہوتا تاکہ فوراً فتح مل جاۓ … حق کے لئے آواز اٹھانا اس لئے ضروری ہوتا ہے کیونکہ اس سے امید بندھی رہتی ہے. اس سے یقین کامل رہتا ہے. اس سے انسان دنیا میں موجود نفرت، حقارت، نہ انصافی، بد دیانتی کے اندھیر کا مقابلہ کرنے کی ہمت رکھتا ہے. آج ہم کوئی بہت بڑے انقلابی تو نہیں، نہ ہی ہم ملالہ کی طرح بہادر ہیں اور نہ ہی کسی ٹینک کے آگے اپنی جان دینے کے لیے تیار ہیں. لیکن یہ ضرور جانتے ہیں کہ اپنے قلم سے اور اپنی زبان سے جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے.
آج دنیا بھر میں بہت سے لوگوں کو خاموش کیا جا رہا ہے. کچھ لوگ آگہی سے ڈرتے ہیں، عورتوں کو تعلیم دلانے سے ڈرتے ہیں. گلگت بلتستان میں کچھ درندوں نے بچوں کے تعلیمی اداروں کو جلا کے خاک کیا. کچھ لوگوں نے زبان و بیان کو، سچ کو، آزادی کو، آزادی اظہار کو کچلنے کی بھرپور کوشش کی.. کچھ لوگ انسانی حقوق کی پامالی کی تاویلیں دیتے ہیں اور ظلمت کا ساتھ دیتے ہیں، محظ عارضی فائدوں کے لئے. محظ اپنی حفاظت ذات کے لئے. کاش کے وہ جانتے کہ ذات مٹ جاتی ہے. اور جنگ جاری رہتی ہے.
Have trouble reading Urdu? Listen to the full blog here