آپ پورا دن سوشل میڈیا پر چیزیں شیئر، پوسٹ، لائک اور ٹویٹ کرتے ہوئے گزارتے ہیں لیکن یہ عمل آپکی فعال ترین مشین یعنی دماغ پر کیا اثرات مرتّب کرتاہے؟پوری تاریخ میں جدید ایجادات کے متعارف ہونے کی وجہ سے انسانی دماغ کوکئی طرح کی پیشرفت سے سمجھوتہ کرنے کی ضرورت پیش آتی رہی ہےاورانٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی تیزی نے بھی انسانی دماغ پر دلچسپ اثرات مرتّب کئے ہیں۔
کچھ لوگوں کے لئے آن لائن نیٹ ورکنگ ایک جزوقتی دلچسپی کے ساتھ ساتھ زندگی کا ایک طرزِ عمل اور کُل وقتی مشغلہ بننے کے بعد نیوروپلاسٹیسِٹی یا “نئے تجربات کے پیشِ نظر اپنے رویّے کو بدلنے کی دماغی صلاحیت”، کا استعمال بے تحاشا بڑھ گیا ہے۔
جتنے زیادہ فیس بُک کے دوست= اتنا ہی بڑا آپ کے دماغ کا گرے میٹر
ہم آن لائن نیٹ ورکنگ کے سماجی اور معاشرتی اثرات کے بارے میں بات کرتے نہیں تھکتے لیکن اس کے انسانی دماغ پراثرات پر ہم شاید ہی کبھی بات کرتے ہیں۔ بظاہر اس کی وجوہات آن لائن نیٹ ورکنگ کامقابلتاًنیا پن اوراس موضوع پر کسی تحقیق کا نہ ہونا ہو سکتی ہیں۔ پھر بھی اب تک جو تھوڑی بہت تحقیق کی گئی ہے وہ بلاشبہ تجزیے کے قابل ہے۔
جیسا کہ رائل سوسائٹی کے ایک جائزے میں بتایا کیا گیا کہ فیس بُک پر آپ کے دوستوں کی تعداد آپکے دماغ میں موجودگرے میٹر سے براہ راست منسلک ہوتی ہے۔ محققین نے گرے میٹرکی مقدار کو ماپا جو کہ یاداشت، احساسات، بات چیت، حسیّاتی تاثر اور پٹھوں کو کنٹرول کرنے والا دماغ کا ایک حصہ ہے اور انہیں“معلوم ہوا کہ ایک شخص کے فیس بک پر جتنے زیادہ دوست تھے اسکے دماغ کے چند حصوں میں اُتنا ہی زیادہ گرے میٹر تھا“۔
پھر بھی اس صورتحال کے پیچھے کسی صریح خواہش کی عدم موجودگی میں یہ ایک قسم کی مرغی اور انڈے کی سی صورتحال ہے جہاں ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ آیا وہ لوگ، جن میں گرے میٹر بہت زیادہ ہے، وہ عام طور پر آن لائن نیٹ ورکنگ میں زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں یا پھر گرے میٹر کسی شخص کے فیس بُک کے دوستوں کی تعداد کی وجہ سے بنتا ہے۔
اپنی یاداشت کو تازہ دم کریں
چونکہ یاداشت گرے میٹر کے بنیادی عناصر میں سے ایک ہے اس لئے آن لائن نیٹ ورکنگ کے ہماری صورتحال کا جائزہ لینےکی صلاحّیت پر اثرات کے حوالے سے اکثر سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ بہت سے لوگ شکایت کرتے ہیں کہ اس حقیقت کے پیشِ نظرکہ مثال کے طور پر ہم آن لائن نیٹ ورکنگ کو کسی سے بات چیت کے لئے استعمال کرتے ہیں جو کہ ان کےٹیلی فون نمبر اور رابطے کی تفصیلات کو یاد رکھنے کے بالکل الٹ ہے لہٰذا اس طرح ہم اپنی یاداشت کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ لیکن سائنسی ثبوت سے ظاہرہوتا ہے کہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔
2012 میں تجزیہ کار ٹریسی پیکیئم ایلووے اور راس جیفری نے مختلف آن لائن نیٹ ورکنگ چینلز کے ہماری یادداشت، سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں اور سماجی روابط کے مختلف درجات پر ہونے والے اثرات پر“سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس (SNSs) کے استعمال کے ادراکی مہارت پر اثرات” کے عنوان سے ایک تحقیقی مقالہ پیش کیا۔ انہیں معلوم ہوا کہ مختلف مراحل پر مختلف قسم کی مشقیں یقیناً ممبرز کی فعال یاداشت پر فیصلہ کُن اثرات مرتّب کرتی ہیں۔
مثال کے طور پر اُنہوں ایک ممبر سے اپنے دوستوں کے فیس بُک سٹیٹس چیک کرنے کے لئے کہااور یہ کام جتنا زیادہ کیا گیا اتنی ہی زیادہ فعال یاداشت کے درجات میں فیصلہ کن بہتری آئی۔ یہ چیز مددگار ثابت ہوتی ہے کہ زیادہ معلومات حاصل کرنے کے لئے یعنی زیادہ اسٹیٹس، زیادہ تصویریں، زیادہ بات چیت کے لئے ہمارے دماغ کورفتار کا ساتھ دینے کے لئے زیادہ محنت کی ضرورت پڑتی ہے۔ ایک پٹھے کی طرح سیریبرم سےجتنا زیادہ کام لیا جاتا ہے اس کی نشونما اُتنی ہی متوازن ہوتی ہے۔
Bilkul shi