Home » ہمیں پنجابی نہیں آتی

ہمیں پنجابی نہیں آتی

ایک بات بتاؤں؟ یہ تحریر آج نہ لکھی گئی تو کبھی نہیں لکھی جائے گی۔ گئے دنوں کا قصہ ہے کہ ایک اسکول میں بچوں خو پڑھانے کا بیڑہ اٹھا رکھا تھا۔ کیا پڑھاتی تھی؟ یہ نہیں بتاوں گی۔ لیکن یہ بتا سکتی ہوں کہ ننھی جانوں کا خون سکھا کر رکھا ہوا تھا۔ مجال ہے جو کوئی یہ کہہ کر دکھائے کہ آج کام کرنے کا دل نہیں۔ یہ دل ول کیا ہوتا ہے؟ لکھو۔۔۔ یہ کیا بات ہوئی کہ دل نہیں چاہ رہا۔ کیا ہمارا دل چاہتا ہے کہ تم کند ذہنوں کے ساتھ مغز کھپائیں؟ ہماری بھی مجبوری ہے۔ تم بھی دل مارو اور ہاتھ چلاو۔
لیکن مس۔۔۔کیا لکھیں؟ کچھ ذہن میں نہیں آ رہا۔
یہی لکھ دو۔ اسی جملے سے شروع کرو ‘کچھ ذہن میں نہیں آ رہا۔’
خدا کی قسم مانا ہوا نسخہ تھا کہ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ اس کے بعد ٹرین نے فراٹے نہ بھرے ہوں۔ بس ایک دفعہ دھکا لگنے کی دیر ہوتی تھی اور چل سو چل۔ بس یہی بات ہے کہ جو پل ہو اسے پکڑ لیا جائے۔ رقم کر لیا جائے۔ یہ آمد وامد اچھا لکھنے والوں پر ہوتی ہو گی۔ ہمیں اس سے کیا۔ بس بیٹھنے کی بات ہے۔ کسی بھی مدعے کی شروعات ہو جائے تو اختتام بھی ہو ہی جاتا ہے۔ نہ بھی ہو تو کیا فرق پڑتا ہے۔ ہے نا جی؟
کبھی کبھی وہ وقت بہت یاد آتا ہے جب ہم پڑھاتے تھے۔ یہ سوال دوبارہ مت کیجئے گا کہ کیا پڑھاتے تھے۔ بس اتنا اشارہ دے دیں کہ ایک شدھ انگریزی اسکول میں پڑھاتے تھے جہاں والدین کا بھاری فیسیں دینے کا واحد مقصد یہی ہوتا تھا کہ ان کا بچہ فر فر انگریزی بولنے لگے۔ بھلے مزاج کا چنگیز خان ہو۔ چھوٹے بڑے کی تمیز سے عاری ہو۔ لیکن بس انگریزی سیکھ جائے۔ استانیاں بھی گٹ ہے انگریزی بولتی ہوں۔ اسکول میں اردو بولنے پر ممانعت ہو۔ اپنی ثقافت سے کسی قسم کا کوئی ربط نہ ہو۔ بس ان کا اتنا سا خواب تھا۔
پنجاب کے دور افتادہ علاقوں سے آنے والے ان بچوں کو گھر میں اپنی مادری زبان پنجابی تو درکنار اردو بولنے سے بھی عار تھی۔ اپنے ہی رشتے دار پینڈو تھے۔ اپنی ہی زبان جہالت کی نشانی تھی۔ عجیب بات ہے نا؟ ہزار برس سے بھی قدیم زبان جس میں دنیا کے ادب کا سب سے قیمتی خزانہ دفن ہے جہالت کی نشانی تھی۔ دفن ہی ہوا نا۔ اسے وینٹیلیٹر پر رکھنے میں کسیے دلطسپی تھی؟ شاعری اور بولیوں کا ایک جم غفیر مرتا ہے تو مرے۔ ہمیں اس سے کیا لگے؟
پنجابی کو دفن کیا۔ وہ اردو جس سے یہ گلہ تھا یہ ہمارے خطے کے زبان ہی نہیں اور یو پی کی اشرافیہ کی نشانی ہم پر مسلط کی گئی ہے، اب معتبر ٹھہری۔ یہی نہیں پنجابی کو نچلے طبقے کی زبان گردانا گیا۔ پنجابی بولنے والے بچوں سے کھیلنا معیوب ٹھہرا کہ کہیں ہمارے بچے کی ‘لینگوایج’ نہ خراب ہو جائے۔
سوشل میڈیا پر آج کر اس بات کا بہت رونا ہے کہ اب پنجاب کو کونے سے لگایا جا رہا ہے۔ صاحب، یہ تو اسی دن ہو چکا تھا جس دن پنجابیوں نے اپنے بچوں سے اپنی ہی مادری زبان کو چھپانا شروع کر دیا تھا۔ گھر میں ٹوٹی پھوٹی اردو بولنی شروع کر دی تھی۔ کسی سے کیا گلہ جب پنجابی خود ہی اپنی ثقافت سے منہ موڑے بیٹھے ہیں؟ اب رہی سہی کسر انگریزی کے کمپلکس نے پوری کر دی۔
جب تک اپنی علاقائی زبانوں کو وہ مقام نہیں دیا جائے گا جس کی وہ حقدار ہیں، یہاں کوئی زبان پنپ نہیں پائے گی۔ پنجابی کی جگہ اردو نے لی اور اب اردو کی جگہ انگریزی قابض ہے۔ مادری زبان کیا ہے؟ بس ایک ملغوبہ ہے۔ معاف کیجئے گا یہ تحریر اردو میں ہے۔ ہمیں پنجابی نہیں آتی۔

Related Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *