Home » دعا منگی کا قصور تو ہے

دعا منگی کا قصور تو ہے

کوشش ہے کہ بات مختصر رہے تاکہ نہ آپ اکتائیں اور نہ ہی ہم۔ نہ آپ کے پاس کسی لمبے کالم کو پڑھنے کا وقت ہے اور ہم تو ہیں ہی ہمیشہ کی طرح وقت کی تنگی کا شکار۔ آپ کو لگ رہا ہو گا کہ ہم یوں ہی کہہ رہے ہیں کہ ہمیشہ نہ نہ کرتے بات لمبی ہی کر جاتے ہیں۔ لیکن یقین مانئے صاحب اس دفعہ واقعی بھیڑیا آ گیا ہے۔
دعا منگی کا ذکر ہے۔ ایک جواں سال لڑکی کراچی میں ایک ڈھابے کے باہر سے اغوا ہو جاتی ہے۔ اس کا دوست حارث فتح اغواکاروں کی گولیوں کا نشانہ بن جاتا ہے۔ گھر میں کہرام مچ جاتا ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک تھرتھلی مچ جاتی ہے۔ احتجاج کیا جاتا ہے۔ مظاہرے نکالے جاتے ہیں۔ اس خبر کے ساتھ دعا منگی کی تصاویر بھی پوسٹ کی جاتی ہیں کہ شاید ڈھونڈنے میں آسانی رہے۔ انٹرنیشنل میڈیا بھی حرکت میں آ جاتا ہے۔
لیکن ہم تو ہم ہیں۔ صرف اس بات سے مطلب رکھتے ہیں کہ اغوا ہونے والی دعا منگی بغیر آستینوں کی قمیض پہنتی تھی۔ جب اغوا ہوئی تو اس کی خاطر لڑنے والا دوست ایک لڑکا تھا۔ جی، ہمیں کیا لگے کہ انسانی حقوق کس نہج پر پامال ہوئے ہیں۔ ہمیں تو محض اپنی گلی سٹی اخلاقیات اور معاشرتی اقدار سے مطلب ہے۔ دوپٹہ سر پر رکھتی تو ہم برا بھلا بھی کہتے۔ جیسا کہ ساری بات کپڑوں کی ہی ہوتی ہے اس لیے ہم تو اپنی سوچ کو کنویں تک ہی محدود رکھیں گے اور یہیں ٹرائیں گے۔
خدا کا بھلا ہوا کہ سات دن اغواکاروں کی قید میں رہنے والی دعا منگی خیر و عافیت سے اپنے گھر کو لوٹی۔ ماں باپ نے شکر کیا۔ بہن بھائیوں کی جان میں جان آئی۔ سوشل میڈیا پر دعا کے خیر خواہوں میں بھی خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ لیکن یہیں رکیے۔ ہماری گردان ابھی باقی ہے۔
ہمیں اس کے خیر سے گھر لوٹنے پر بھی سو اعتراض تھے۔ اچھا، اگر زندہ واپس آئی ہے تو یقینا خود ہی منہ کالا کرنے گئی ہو گی۔ اپنی مرضی سے گھومتی پھرتی رہی ہو گی۔ ایسی لڑکیاں یہی کرتی ہیں۔ الغرض جتنے مینڈک اتنی باتیں۔  ہر کسی کے پاس اخلاقیات کا بھاشن تیار تھا جس کی رو سے دعا منگی کا خیریت سے واپس آنا بھی اس کے کردار پر داغ تھا۔
بیس لاکھ کے عوض رہا ہوئی یہ لڑکی سات دن تک اندھیرے میں رہی۔ اس کا دوست جان کی بازی لڑتا رہا۔ ماں باپ کی طبیعت بگڑ گئی۔ لیکن ابھی بھی یہ سب ڈرامہ ہے۔ ابھی بھی سب فراڈ ہے۔ آوارگی کے بہانے ہیں۔
سچی بات ہے کہ دعا منگی کا قصور تو ہے۔ اس کا سب سے بڑا گناہ یہی ہے کہ اس غلاظت سے آلودہ معاشرے میں پیدا ہوئی جہاں انسان نہیں مینڈک بستے ہیں۔ وہی مینڈک جو اپنے کنویں سے باہر کی دنیا نہ جانتے ہیں نہ سمجھتے ہیں۔ بس اسی اندھیرے میں ٹراتے رہتے ہیں۔ نہ خوش رہتے ہیں نہ رہنے دیتے ہیں۔ بڑے ہی بد بخت مینڈک ہیں۔

Related Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *