Home » جنت کو انصاف نہیں ملے گا

جنت کو انصاف نہیں ملے گا

یہ کوئی وقت تو نہیں ہے کالم لکھنے کا۔ صبح کے سات بج رہے ہیں۔ یقین مانئے تو یہ سونے کا وقت ہے۔ الارم کو بند کرنے کا وقت ہے۔ وہ خواب جو الارم کی تیز آواز سے ٹوٹ گیا تھا اسے دوبارہ جوڑنے کا وقت ہے۔ اگر بہت ہی چستی دکھا دی جائے تو انگڑائی لینے کا وقت ہے۔ صبح صبح اٹھ کر کالم لکھنے کا وقت تو ہرگز نہیں۔ لیکن وہ کیا ہے کہ کچھ چیزوں کا وقت نہیں ہوتا۔ اگر وقت تلاشتے رہیں تو ان کا وقت گزر جاتا ہے۔ جب وقت گزر جاتا ہے تو کسی قسم کی گردان معنی نہیں رکھتی۔
بعض دفعہ تمہید بھی بے پر کی لگتی ہے۔ اصل مدعے پر آنا چاہیئے۔ لیکن اصل بات اتنی بھیانک اور بد ہئیت ہے کہ اس سے نظریں چرانے کا دل کر رہا ہے۔ خیر ایسا کب تک چلے گا؟
ابھی کل ہی ایک مانسہرہ میں جنت نامی ایک چار سالہ بچی کے ساتھ زیادتی اور قتل کے بارے میں معلوم ہوا۔ نہ صرف اسے زیادتی کا نشانہ بنایا گیا بلکہ ایک اسی فٹ گہرے کنویں میں بھی پھینک دیا گیا۔ جنت کی جہنم یہیں ختم نہیں ہوئی۔ قدرت کی ستم ظریفی یہ دیکھئے کہ وہ زندہ رہی۔ نہ صرف زندہ رہی بلکہ مدد کے لیے چلاتی رہی۔ چار سال کی بچی چار دن تک زخموں کی تکلیف اور خوف میں بلکتی رہی۔ خدا جانے کس کو اس دکھیاری کی آواز سنائی دے گئی۔ جنت کو ہسپتال پہنچایا گیا۔ اس کا ننھا وجود مزید زخموں اور غموں کا بوجھ نہ لے سکا۔ جنت چل بسی۔ اس جہنم سی دنیا کو چھوڑ کر جنت ایک اور جہاں مہکانے کو نکل پڑی۔ جہاں کوئی اسے کنویں میں نہیں پھینکے گا۔ جہاں اسے اپنی ہوس مٹانے کے لیے صفحہ ہستی سے نہیں مٹا دے گا۔ جہاں سب شانتی ہے۔
جنت تو چلی گئی۔ ویسے جنت کا یہاں کام بھی کیا تھا۔ اس دوزخ میں کسی فرشتے کو رہنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔
آپ نے ایک بات نوٹ کی؟
وہ بات جس پر کسی بھی انسانی معاشرے پر آسمان ہل جانا چاہیئے ہمارے ہاں ایک عام سی بات ہے۔ کون سا پہلی بار ہوا ہے۔ کون سا آخری بار ہوا ہے۔ ہم ابھی بھی ‘اوہ بیچاری بچی’ کہہ کر یہ پوسٹ شیئر کریں گے۔ دو چار لمبی چوڑی باتیں اور کر لیں گے۔ دل بہت ہی فراخ ہوا تو شاید حکومت کو گالیاں نکال لیں۔ جنت کے قاتلوں کو بد دعائیں دے دیں گے۔ اللہ کی بے آواز لاٹھی کا انتظار کریں گے۔ اس کے علاوہ نہ ہماری اوقات ہے نہ ہی جگرا۔
بس یہی کریں گے۔ اپنے ارد گرد بسنے والے ایسے لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں کیسوں کو یوں نظر انداز کر دیں گے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ بچوں کے ساتھ ہونے والے یہ قصے صرف جنت تک ہی محدود نہیں ہیں۔ زینب ہی وہ واحد بچی نہیں تھی جس کے ساتھ زیادتی ہوئی۔ اس سے ملتے جلتے کئی قصے ہمارے ارد گرد بکھرے پڑے ہیں۔ اپنے ہی رشتے داروں کی ہوس کا نشانہ بننے والے بچے ہمارے ہی آس پاس ہیں۔ جی، یہ وہی بچے ہیں جو ڈر کے مارے ماں باپ کو کچھ بتا نہیں پاتے۔ بتا دیں تو ان ہی کو چپ کرا دیا جاتا ہے کہ کہیں ‘عزت’ خراب نہ ہو۔ خالو کے بارے میں کچھ کہہ دیا تو کہیں خالہ کا ‘گھر’ نہ ٹوٹ جائے۔ چچا کو کچھ کہہ دیا تو گھر کا ‘ماحول’ خراب ہو گا۔ کچھ سنا سنا لگ رہا ہے نا؟
آج جنت کے لیے آواز اٹھائی جا رہی ہے۔ کل کو کوئی اور بچہ ہو گا۔ جنت اور زینب تو محض کردار ہیں۔ یہ کہانی چلتی رہے گی۔ کسی بھی مہذب معاشرے میں اول تو ایسا واقعہ ہو گا نہیں اور اگر ہو بھی گیا تو اس پر وہ قیامت ٹوٹے گی کہ جس کی نظیر نہیں ملے گی۔ لیکن نہیں، یہاں کچھ نہیں ہو گا۔ قاتلوں اور مجرموں کو بھی معلوم ہے کہ گھر کی ‘عزت’ اپنے ہی بچے کے بچپن سے زیادہ اہم ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ کوئی ان کا بال بیکا نہیں کر سکتا۔ یہ معاشرے میں یوں ہی معزز بنے پھرتے رہیں گے۔ ہزاروں بچوں کا مجرم سہیل عزیز حکومت میں اعلی عہدوں تک بھی پہنچ جائے گا۔
ہاں، اگر آپ چاہیں تو فیس بک اسٹیٹس ڈال کر سکتے ہیں۔ ٹویٹ کر سکتے ہیں۔ پیش ٹیگ جسٹس فار فلاں فلاں فالو کر سکتے ہیں۔ بیت جی چاہے تو اپنی ڈی پی بھی بدل سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ نہ آپ کسی لائق ہیں نہ کسی قابل۔ الارم بند کیجئے اور سو جائیے۔ کم از کم نیند تو پوری کیجئے۔ اچھی صحت کے لیے ضروری ہے۔

Related Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *